Monday, 6 January 2020

غم کا دیمک (ایک سچی کتھا

غم کا دیمک (ایک سچی کتھا


*🌧بارش گذشتہ* ایک گھنٹے سے مسلسل برس رہی تھی۔ میں اس دوران بادلوں پر نظریں ٹکائے بارش میں بھیگتا رہا۔ پانی کی بوندیں میرے چہرے سے آ ٹکراتی اور پھر اپنے اپنے راستے بناتی جسم میں ہی جذب ہوئی جاتیں۔ میرے سامنے سڑک ایک تالاب کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ آسمان سے چھاجوں برستے پانی سے اس تالاب میں ہزاروں محرابیں ایک پل میں رونما ہوتیں اور اگلے ہی لمحے ڈھے جاتیں۔ میں ان محرابوں میں اپنی حصے کی کہانی ڈھونڈ رہا تھا۔ اپنے چہرے پر پڑنے والی بوندوں سے کوئی افسانہ تخلیق کرنا چاہتا تھا۔
مجھے ایک مقابلے کے لیے افسانہ لکھنا تھا۔ ایک کہانی تراشنی تھی۔ اور اس کام کے لیے ہمیشہ بارش میرے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں رہی۔ تخلیقی عمل کے دوران بارش کی پہلی بوچھاڑ ہی امکانات کے نئے جہانوں سے روشناس کروا دیتی۔ چھما چھم برسنے والی بوندوں کی موسیقی دل کے جلترنگ بجا دیا کرتی۔ لیکن آج یہ موسیقی بہت ہی بے ہنگم معلوم ہوتی تھی۔ یہ بے ہنگم شور، بنتی بگڑتی محرابوں کا منظر اور چہرے پر پڑتی بوندوں کی چوٹ۔۔۔سب مل کر بھی میرے اندر کے کہانی کار کو جگانے سے قاصر تھے۔
"کہیں ایسا تو نہیں کہ غم نے میری تخلیقی صلاحیتوں کو گھن کی طرح چاٹ لیا ہو؟؟؟"۔۔۔۔ میرا دل دھڑکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش آہستہ آہستہ تھمنے لگی۔ گہرے سیاہ بادل پہلے بھورے پھر سفید ہوئے اور آہستہ آہستہ چھٹ گئے۔ یہاں تک کہ سفید ٹکڑیوں کی اوٹ سے سورج کی کرنیں آئیں، چہرے سے ٹکرائیں اور چوٹ کی جگہ تمازت نے لے لی۔
میں مایوس ہو کر اٹھا۔ میرے ذہن میں کسی کہانی کا کوئی خاکہ نا آ سکا۔ باپ کی حادثاتی وفات کے غم نے میرے تخیل کو ختم کر دیا تھا۔
کبھی وقت تھا کہ پانیوں پر بنتی ہر محراب سے کئی کہانیاں جنم لیتیں۔ بھلے انہیں کاغذ پر منتقل کر پاتا یا نہیں لیکن چہرے پر برستی ہر بوند کوئی نہ کوئی اچھوتا خیال ضرور لے کر آتی۔ مگر آج۔۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے کیا ہوا تھا۔ میں چاہ کر بھی کوئی افسانہ کوئی کہانی تخلیق نہ کر سکا۔
سچ ہے۔۔۔
"غم انسان کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے"
یہ جملہ پہلی بوند کی مانند میرے تخیل سے ٹکرایا۔ اور ایک بار پھر سے بارش برسنے لگی۔ آنسوؤں کی بارش۔۔۔ پلکوں پر محرابیں بنتی بگڑتی رہیں۔ اور بوندوں کی چوٹ چہرے پر نہیں اندر ہی اندر کہیں دل پر لگتی رہی۔
"تو کیا اب میرے اندر کا لکھاری مر چکا؟؟؟"
"نہیں۔۔۔۔"
سوال اور جواب کی گونج ایک ہی وقت میں میرے دل میں یوں گونجی کہ پورا جسم دہل کر رہ گیا۔ شعور کے کسی نہاں خانے سے والد محترم کی جانب سے کی گئی نصیحت آمیز گفتگو سماعت سے ٹکرا رہی تھی۔۔۔
"بیٹا غم اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن غم کو کبھی خود پر اتنا حاوی نہ ہونے دینا۔ اپنے عزم کو ہمیشہ خود پر طاری ہونے والے غم سے بلند رکھنا۔ یاد رکھو۔۔۔ تم عام سا جوتا پہن کر بھی دشوار ترین راستے پر چل سکتے ہو۔ لیکن اسی راستے کا کوئی کنکر تمہارے جوتے میں آ گھسے تو اچھے سے اچھا جوتا پہن کر کسی ہموار ترین راستے پر بھی نہیں چل سکتے۔ یوں سمجھ لو کہ راستہ غم کی راہ ہے تو مضبوط چال تمہارا عزم۔۔۔ زندگی گزارنے کے لیے غم کی راہ پر چلنا پڑے تو خیال رکھنا اس کا کوئی کنکر تمہارے عزم کے راستے میں نہ آنے پائے"
ایک ایک لفظ کے ساتھ میرے ذہن کی گرہیں کھلتی جا رہی تھیں۔ امید کے دیپ نئی روشنی دکھا رہے تھے۔
"ٹھیک ہے مجھے اپنے غم پر حاوی ہونا ہے۔ اس دیمک کو ختم کرنا ہے۔ لیکن شروعات کہاں سے ہو؟"
میں نے جیسے خودکلامی میں سوال کیا۔
جواب ایک گونج کی صورت تھا۔۔۔
"شروعات بھی وہیں سے ہو گی جہاں پہ اختتام ہوا۔ راکھ کے ڈھیر میں پڑی ایک چنگاری الاؤ کو نئے سرے سے جلانے کے لیے کافی ہے۔ کہانی نہیں ملتی نہ سہی۔۔۔ تم اپنے ان منتشر خیالات کو ہی الفاظ کا جامہ پہنانا شروع کر دو۔ کہانی خودبخود بنتی جائے گی۔"
خیال آتے ہی قلم حرکت میں آیا۔ حرف لفظوں میں اور لفظ سطروں میں ڈھلتے گئے۔ اور یہ کہانی تخلیق ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ غم کا دیمک انسان کو اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے لیکن اس کی راہ روکنے کے لیے امید کی دوا بھی کہیں "اندر" سے ہی دستیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ گھُن خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نا ہو اسے بھرنے کے لیے بالآخر لکڑی ہی کام آتی ہے


_*مزید دلچسپی سے بھرپور معلوماتی پوسٹس کیلیے فیسبک پیج کو لائک کریں نام اردو میں لکھ کے سرچ کریں👇🏻*_

دلچسپ معلومات بائے سراج جوئیہ

No comments:

Post a Comment

Ambit Finance"

  Ambit Finance" As of my last knowledge update in September 2021, "Ambit Finance" is not a widely recognized term or entity ...