_*عراق میں امریکی فوج کے اڈے: امریکہ تین اہم اڈوں سے اپنی فوج کو واپس بلا لے گا*_
BBC.Urdu
آئندہ چند ہفتوں میں امریکہ عراق میں القائم فوجی اڈے اور دیگر دو اہم اڈوں سے اپنی فوج کو نکال رہا ہے۔
اپنے آٹھ میں سے تین فوجی اڈوں کو بند کرنے کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے امریکہ عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی لانے کا خواہاں ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب عراقی حکومت اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے۔
رواں ہفتے القائم فوجی اڈے پر ایک تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جس میں باضابطہ طور پر امریکی حکام ساز و سامان سمیت اڈے کو عراقی فوج کے حوالے کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی عراق میں شامی سرحد پر تمام تر امریکی موجودگی ختم ہو جائے گی۔
یہ اڈہ عراق کے پرانے ترین ٹرین سٹیشنوں میں سے ایک کے مقام پر تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے قریب ہی دریائے فرات کے کنارے القائم نام کا ہی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔
سنہ 2014 میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ہاتھ آنے والا یہ عراق کا پہلا خطہ تھا اور سنہ 2017 میں عراقی فورسز کی جانب سے واپس لیے گئے آخری علاقوں میں سے ایک تھا۔
دولتِ اسلامیہ کے خلاف کامیابی کے بعد اس علاقے کو سرحد کے دونوں جانب ایرانی حمایت یافتہ ملشیا نے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
اگرچہ عراقی فورسز اس علاقے میں موجود ہیں تاہم القائم کا علاقہ ابھی بھی ان ملیشیا میں سے ایک پی ایم ایف کے زیرِ اثر ہے۔
میں گذشتہ دو سال میں امریکی فورسز کے ساتھ دو مرتبہ القائم اڈے پر گیا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ وہاں پر ماحول کس طرح تبدیل ہوا ہے۔
دسمبر 2017 میں وہاں عراقی اور امریکی دونوں جھنڈے نظر آتے تھے، جب امریکہ کی قیادت میں عراقی فوجی دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہے تھے۔
اس وقت سرحد کے دونوں جانب ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ اس وقت شاید وہ صورتحال دونوں کے لیے کچھ زیادہ پرسکون نہیں تھی مگر دونوں کا ایک مشترکہ دشمن دولتِ اسلامیہ تھا۔
ایسی صورتحال میں عراقی فوج ملیشیا اور امریکی فوج کے درمیان پیغام رساں کا کردار ادا کرتی تھی اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف دونوں ہم آہنگی کے ساتھ کارروائیاں بھی کرتے تھے۔
_*’ہم انھیں جانے پر مجبور کر دیں گے‘*_
مگر دسمبر 2018 میں میرے آخری دورے کے موقعے پر خطے کا ماحول تبدیل ہو چکا تھا۔ ایرانی حمایت یافتہ تنظیمیں عراقی سکیورٹی فورسز کا حصہ بن چکی تھیں اور ان کی علاقے میں طاقت بڑھ رہی تھی۔
اس سال القائم پر صرف ایک ہی جھنڈا تھا۔ امریکیوں نے اس اڈے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا مگر اڈے کے باہر پورا علاقہ پی ایم ایف کے جھنڈوں اور بل بورڈز سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں کہیں تو ایران کے سپریم لیڈر جنھیں پی ایم ایف کے بہت سے جنگجو اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں، کی تصاویر بھی نظر آرہی تھیں۔
امریکی قافلوں کو پی ایم ایف کے کنٹرول میں چیک پوائنٹس سے گزر کر شامی سرحد پر اپنی آرٹلری بیس پر جانا پڑتا تھا۔
آہستہ آہستہ پی ایم ایف نے خطے میں امریکی موجودگی کی اپنی مخالفت کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔
ان کا اب مؤقف تھا کہ وہ دولتِ اسلامیہ کا خود ہی مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کاتب حزب اللہ نامی ان کے ایک ذیلی گروپ کا کہنا تھا کہ امریکہ شامی سرحد پر ان کی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے، جس الزام کی امریکیوں نے کئی بار تردید کی۔
پی ایم ایف کے بغداد میں صدر دفتر میں ایک انٹرویو کے دوران ابو آمنے نامی کاتب حزب اللہ کے ایک کمانڈر نے ہمیں بتایا کہ ’اگر وہ جانا نہیں چاہتے تو ہم انھیں جانے پر مجبور کر دیں گے۔‘
اس سال کے آغاز میں امریکہ کی جانب سے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو نشانہ بنائے جانے نے اس نازک صورتحال کو اور بھی بگاڑ دیا۔
جنرل قاسم سلیمانی ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ تھے اور انھیں بغداد کے ہوائی اڈے پر ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا۔ اس وقت ان کے ہمراہ پی ایم ایف کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی موجود تھے جو حملے میں مارے گئے۔ اس کے بعد عراقی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام غیر ملکی افواج اور خاص طور پر امریکیوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ القائم کو چھوڑنے کا فیصلہ گذشتہ سال کر چکے تھے جب علاقے میں دولتِ اسلامیہ کا خطرہ کم ہو گیا تھا تاہم امریکی فوجیوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات اس اقدام میں تیزی لائے ہیں۔
_*حملوں میں تیزی*_
ایک سنیئر امریکی دفاعی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ کاتب حزب اللہ کی القائم فوجی اڈے کے قریب موجودگی اس فیصلے میں ایک اہم عنصر تھا۔
امریکہ قیارہ ایئر فیلڈ ویسٹ اور کرکک اڈے بھی خالی کرنے والا ہے۔ قیارہ فوجی اڈے کے ذریعے دولتِ اسلامیہ سے موصل واپس لینے کے لیے امریکی اتحادی آپریشن کیا گیا تھا۔ ان دونوں اڈوں پر گذشتہ کچھ ماہ میں راکٹ حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں ایک امریکی کانٹریکٹر بھی ہلاک ہوا تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری کاتب حزب اللہ پر ڈالی گئی تھی اور اس کے بعد گروہ کے عراق اور شام دونوں ممالک میں صدر دفاتر پر امریکی کارروائیوں میں 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اکتوبر 2019 سے اب تک عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر 25 راکٹ حملے کیے جا چکے ہیں جن میں 160 راکٹوں کا استعمال کیا گیا۔
گذشتہ ہفتے تاجی فوجی اڈے پر دو حملوں میں تین اتحادی فوجی ہلاک اور عراقی فوج کے دو اہلکار شدید زخمی ہو گئے تھے۔
تاہم امریکہ کی جوابی کارروائیوں میں جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا ان کے بارے میں امریکی مؤقف ہے کہ یہ کاتب حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ڈیپو تھے مگر ان کارروائیوں میں تین عراقی فوجی، دو پولیس افسر اور ایک عام شہری ہلاک ہوئے۔
ان کارروائیوں سے امریکہ اور عراق کے درمیان کشیدگی بڑھی۔ اس کے جواب میں عراق جوائنٹ آپریشن کمانڈ (ملک میں تمام فوجی کارروائیوں کا کمانڈ سنٹر) نے ایک بیان جاری کیا جس میں دونوں کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور عراقی پارلیمنٹ کے امریکیوں کو ملک سے نکالنے کے ووٹ کی تائید کی گئی۔
اس وقت عراق میں سرکاری طور پر 5200 امریکی فوجی ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ان تین اڈوں کے بند ہونے کے بعد کتنے واپس امریکہ جائیں گے اور کتنے عراق میں ہی کہیں اور تعینات کیے جائیں گے۔
عراق میں باقی امریکی فوجیوں کے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ زیادہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ کو توقع ہے کہ عراقی فوج کے ساتھ ان کے تعلقات ختم نہیں ہوں گے مگر عراق میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی اب ان کے ملک میں جگہ نہیں ہے
_*مزید دلچسپی سے بھرپور معلوماتی پوسٹس کیلیے فیسبک پیج پہ چلے جائیں نام اردو میں لکھ سرچ کریں👇*_
دلچسپ معلومات بائے سراج جوئیہ
BBC.Urdu
آئندہ چند ہفتوں میں امریکہ عراق میں القائم فوجی اڈے اور دیگر دو اہم اڈوں سے اپنی فوج کو نکال رہا ہے۔
اپنے آٹھ میں سے تین فوجی اڈوں کو بند کرنے کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے امریکہ عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی لانے کا خواہاں ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب عراقی حکومت اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے۔
رواں ہفتے القائم فوجی اڈے پر ایک تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جس میں باضابطہ طور پر امریکی حکام ساز و سامان سمیت اڈے کو عراقی فوج کے حوالے کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی عراق میں شامی سرحد پر تمام تر امریکی موجودگی ختم ہو جائے گی۔
یہ اڈہ عراق کے پرانے ترین ٹرین سٹیشنوں میں سے ایک کے مقام پر تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے قریب ہی دریائے فرات کے کنارے القائم نام کا ہی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔
سنہ 2014 میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ہاتھ آنے والا یہ عراق کا پہلا خطہ تھا اور سنہ 2017 میں عراقی فورسز کی جانب سے واپس لیے گئے آخری علاقوں میں سے ایک تھا۔
دولتِ اسلامیہ کے خلاف کامیابی کے بعد اس علاقے کو سرحد کے دونوں جانب ایرانی حمایت یافتہ ملشیا نے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
اگرچہ عراقی فورسز اس علاقے میں موجود ہیں تاہم القائم کا علاقہ ابھی بھی ان ملیشیا میں سے ایک پی ایم ایف کے زیرِ اثر ہے۔
میں گذشتہ دو سال میں امریکی فورسز کے ساتھ دو مرتبہ القائم اڈے پر گیا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ وہاں پر ماحول کس طرح تبدیل ہوا ہے۔
دسمبر 2017 میں وہاں عراقی اور امریکی دونوں جھنڈے نظر آتے تھے، جب امریکہ کی قیادت میں عراقی فوجی دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہے تھے۔
اس وقت سرحد کے دونوں جانب ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ اس وقت شاید وہ صورتحال دونوں کے لیے کچھ زیادہ پرسکون نہیں تھی مگر دونوں کا ایک مشترکہ دشمن دولتِ اسلامیہ تھا۔
ایسی صورتحال میں عراقی فوج ملیشیا اور امریکی فوج کے درمیان پیغام رساں کا کردار ادا کرتی تھی اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف دونوں ہم آہنگی کے ساتھ کارروائیاں بھی کرتے تھے۔
_*’ہم انھیں جانے پر مجبور کر دیں گے‘*_
مگر دسمبر 2018 میں میرے آخری دورے کے موقعے پر خطے کا ماحول تبدیل ہو چکا تھا۔ ایرانی حمایت یافتہ تنظیمیں عراقی سکیورٹی فورسز کا حصہ بن چکی تھیں اور ان کی علاقے میں طاقت بڑھ رہی تھی۔
اس سال القائم پر صرف ایک ہی جھنڈا تھا۔ امریکیوں نے اس اڈے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا مگر اڈے کے باہر پورا علاقہ پی ایم ایف کے جھنڈوں اور بل بورڈز سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں کہیں تو ایران کے سپریم لیڈر جنھیں پی ایم ایف کے بہت سے جنگجو اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں، کی تصاویر بھی نظر آرہی تھیں۔
امریکی قافلوں کو پی ایم ایف کے کنٹرول میں چیک پوائنٹس سے گزر کر شامی سرحد پر اپنی آرٹلری بیس پر جانا پڑتا تھا۔
آہستہ آہستہ پی ایم ایف نے خطے میں امریکی موجودگی کی اپنی مخالفت کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔
ان کا اب مؤقف تھا کہ وہ دولتِ اسلامیہ کا خود ہی مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کاتب حزب اللہ نامی ان کے ایک ذیلی گروپ کا کہنا تھا کہ امریکہ شامی سرحد پر ان کی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے، جس الزام کی امریکیوں نے کئی بار تردید کی۔
پی ایم ایف کے بغداد میں صدر دفتر میں ایک انٹرویو کے دوران ابو آمنے نامی کاتب حزب اللہ کے ایک کمانڈر نے ہمیں بتایا کہ ’اگر وہ جانا نہیں چاہتے تو ہم انھیں جانے پر مجبور کر دیں گے۔‘
اس سال کے آغاز میں امریکہ کی جانب سے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو نشانہ بنائے جانے نے اس نازک صورتحال کو اور بھی بگاڑ دیا۔
جنرل قاسم سلیمانی ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ تھے اور انھیں بغداد کے ہوائی اڈے پر ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا۔ اس وقت ان کے ہمراہ پی ایم ایف کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی موجود تھے جو حملے میں مارے گئے۔ اس کے بعد عراقی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام غیر ملکی افواج اور خاص طور پر امریکیوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ القائم کو چھوڑنے کا فیصلہ گذشتہ سال کر چکے تھے جب علاقے میں دولتِ اسلامیہ کا خطرہ کم ہو گیا تھا تاہم امریکی فوجیوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات اس اقدام میں تیزی لائے ہیں۔
_*حملوں میں تیزی*_
ایک سنیئر امریکی دفاعی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ کاتب حزب اللہ کی القائم فوجی اڈے کے قریب موجودگی اس فیصلے میں ایک اہم عنصر تھا۔
امریکہ قیارہ ایئر فیلڈ ویسٹ اور کرکک اڈے بھی خالی کرنے والا ہے۔ قیارہ فوجی اڈے کے ذریعے دولتِ اسلامیہ سے موصل واپس لینے کے لیے امریکی اتحادی آپریشن کیا گیا تھا۔ ان دونوں اڈوں پر گذشتہ کچھ ماہ میں راکٹ حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں ایک امریکی کانٹریکٹر بھی ہلاک ہوا تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری کاتب حزب اللہ پر ڈالی گئی تھی اور اس کے بعد گروہ کے عراق اور شام دونوں ممالک میں صدر دفاتر پر امریکی کارروائیوں میں 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اکتوبر 2019 سے اب تک عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر 25 راکٹ حملے کیے جا چکے ہیں جن میں 160 راکٹوں کا استعمال کیا گیا۔
گذشتہ ہفتے تاجی فوجی اڈے پر دو حملوں میں تین اتحادی فوجی ہلاک اور عراقی فوج کے دو اہلکار شدید زخمی ہو گئے تھے۔
تاہم امریکہ کی جوابی کارروائیوں میں جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا ان کے بارے میں امریکی مؤقف ہے کہ یہ کاتب حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ڈیپو تھے مگر ان کارروائیوں میں تین عراقی فوجی، دو پولیس افسر اور ایک عام شہری ہلاک ہوئے۔
ان کارروائیوں سے امریکہ اور عراق کے درمیان کشیدگی بڑھی۔ اس کے جواب میں عراق جوائنٹ آپریشن کمانڈ (ملک میں تمام فوجی کارروائیوں کا کمانڈ سنٹر) نے ایک بیان جاری کیا جس میں دونوں کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور عراقی پارلیمنٹ کے امریکیوں کو ملک سے نکالنے کے ووٹ کی تائید کی گئی۔
اس وقت عراق میں سرکاری طور پر 5200 امریکی فوجی ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ان تین اڈوں کے بند ہونے کے بعد کتنے واپس امریکہ جائیں گے اور کتنے عراق میں ہی کہیں اور تعینات کیے جائیں گے۔
عراق میں باقی امریکی فوجیوں کے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ زیادہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ کو توقع ہے کہ عراقی فوج کے ساتھ ان کے تعلقات ختم نہیں ہوں گے مگر عراق میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی اب ان کے ملک میں جگہ نہیں ہے
_*مزید دلچسپی سے بھرپور معلوماتی پوسٹس کیلیے فیسبک پیج پہ چلے جائیں نام اردو میں لکھ سرچ کریں👇*_
دلچسپ معلومات بائے سراج جوئیہ
No comments:
Post a Comment